السلام علیکم ورحمتہ اللہ
دوستو پیش خدمت ہے میری نئی لطافت بھری نظم بعنوان "بزم شعراء"۔
چاند تاروں نے بچھائی آنکھ تھی دیدار میں
ڈرتے ڈرتے میں چلا جو جانب محفل مگر
ایسے جیسے لاڈلا کوئی چلے اغیارمیں
میں گیا تو دیکھتاہوں شاعراں بسیار شد
ایک سے بڑھ کر نیا تھا تیز ترگفتار میں
ان کی آوازوں نے وہ ہنگامہ برپا تھا کیا
ناؤ جیسے پھنس گئی ہو سیل کے منجدھارمیں
کوئی چینخے کوئی چلّائے کوئی آواز دے
کوئی محوِ گفتگو کوئی محو اشعار میں
میں وہاں سنتا ہوں جو تمہیں بھی سنواتا چلوں
آگ اپنے سینے کی میں یونہی بجھواتا چلوں
شاعر اوّل قصیدوں میں بڑے باذوق تھے
نکتہ چینی کے انہیں دنیا کی شاہی شوق تھے
بابل و بغداد کی حیران ہوئی تاریخ بھی
عدل و انساں دوستی کا بھی جنازہ چل پڑا
مٹ گئی ہے دوجہاں سے وہ امن کی چاشنی
حاکمِ ہندی ہے اقلیّت کے جیسے تاک میں
بے ثمر بے آسرا ہے مفلسوں کی زندگی
’یہ کہا این سی نے پی ڈی پی نے کچھ ایسا کہا‘
کانگریس کے ترجماں نے بھی یہی آواز دی
’فی کلو چاول ہے کافی ایک کنبے کیلیے‘
فوڈ سیکورٹی ایکٹ پہ شاعر نے اپنی رائے دی
مسئلہ کشمیر پر وہ اسطرح گویا ہوئے
گر میسّرہوتو آزادی وگرنہ قید ہی
اور بھی کافی کہے تھے شاعر اوّل مگر
ساری باتیں نقش ہوتی ہیں کہاں سے ذہن پر
دوسرےصاحب جو غزلوں میں بڑے استاد تھے
میرؔ و غالبؔ کے ہزاروں شعر ان کو یاد تھے
پھر بھی میں یونہی سمجھتا ہوں تو میرے پاس ہے
ایک چشم آرزو مجھ پر کبھی کرتے چلو
تیری آنکھوں کی کدورت بھی مجھے تو راس ہے
تیرے قدموں کی کرامت سے لبالب ظرف ہیں
پر تری ناراضگی سے میرے گھر افلاس ہے
توٗ مرے ہمدم ہو تو یہ زندگی الطاف ہو
توٗ نہیں تو زندگی کا ہر مزہ بکواس ہے
عشق نے تیرے کئی انداز بھی اپنا لئے
رومیو ہے قیس ہے رانجھا ہے دیواداس ہے
آخری دم تو خبرگیری کرو اے سنگ دل
شاعرِ دوئم ترا بیٹھا لگائے آس ہے
دوستو یہ تھی نری بکواس شاعر دوم کی
اب سنو احوال تیجے شاعر معصوم کی
تیسرے صاحب ظرافت میں بڑے مشہور تھے
خانہ داری کے ضمن میں اسطرح گویا ہوئے
شوہرِ بے آسرا یونہی سخن گستر ہوا
سوچتا ہوں میں کبھی ناگن کے تیور دیکھ کر
کیوں نہ بھالو ہی مرے اسفار کا ہمسر ہوا
اِس بلا سے شادی کر کے میرے پیارے دوستو
الّو کا پٹھّا نا ہوا الّو کا ٹوٹا پر ہوا
نان باسی کے ملے زلفوں سے پُر تھا شوربہ
چائے کے قہوے سے بھیگا ٹاٹ ہی بستر ہوا
میرے کپڑوں کے بجائے بیوی دھوتی ہے مجھے
آئے دن ہی میرے گھر ہنگامۂ محشر ہوا
مار پڑتی ہے کبھی چمچے سے تو میں کیا کہوں
واصل دوزخ ہوا کیوں نا ؟ شہید گھر ہوا!
مجھ کو دوزخ کی بلاؤں سے حفاظت مل گئی
شامت اعمال سے جو میں ترا شوہر ہوا
تیسرے شاعر کے اقوال گہر بھی ہو گئے
کیا کہوں محفل میں آدھے آدمی تو سو گئے
ایک شاعر خشک تھے اب وہ اٹھے اس شان سے
وہ اٹھے تھے انقلاب شاعری عنوان سے
آج کے شاعر کہاں جانیں گے یہ باریک پن
شاعری مقصود سے خالی وزن ہے نا خیال
قافیے چنداں ہیں مستعمل مگر بے جوڑ و فن
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلا
حال کی میری غزل میں یہ بحر ہے موجزن
کیا کہیں وہ شاعری کی روح تھی جو وہ ہنر
ہو گیا الفاظ کے تھوڑے ذخیرے میں دفن
اور اگر کچھ شاعروں میں وہ ہنر باقی بھی ہے
وہ پڑے ہیں یاس کی دنیا مین بے گور و کفن
شاعری انسانیت کی بے مثل تمثیل ہے
تو اگر انساں نہیں بنتا نہ بن شاعر تو بن
انقلاب شاعری کو میں بھلا اب کیا کہوں
یہ تو وہ غمزہ ہے تن میرا رہا نا ہی یہ من
دوستو میں کیا کہوں کچھ اور بھی شاعر اٹھے
اپنے اپنے طرز کے اشعار انہوں نے کہے
اب مری باری تھی میں بھی کچھ بیاں کرتا چلوں
اپنے قدموں کو شریک کارواں کرتا چلوں
خیر میں کہتا چلوں میں نے وہاں پر کیا کہا
شاعرو تم اب بھی الجھے ہو نجی گفتار میں
آشیاں سے دوڑ کے باہر جہاں کو دو صدا
اب مساکین جہاں کو خوف کی حاجت نہیں
بزم عالم میں انہی کا دور اب ہے آگیا
گر کوئی شاہیں کبوتر پر کبھی حملہ کرے
کر دو عالم میں بپا ہنگامۂ روز جزاء
گر کوئی انسانیت کی خرقہ پامالی کرے
اسکے ہاتھوں کو پکڑ کے کاٹ دو اُسکو تھما
اور اگر کوئی شہید انس و الفت دیکھ لو
اسکے دامن کو پکڑ لو تھام لو اسکو سدا
چھوڑ کے بوسیدہ باتوں کو نیا پیغام دو
ساری دنیا کے بنی انساں کو تم اسلام دو
دوستو انجام یوں محفل ہوئی اشعار کی
میں سناتا بھی چلوں یہ بات میرے یار کی
شاعراں بسیار گفتہ شعر ہائے پر مزہ
کس نگفتہ شعر ہمچوں حاء و الف و میم و یا
دوستو پیش خدمت ہے میری نئی لطافت بھری نظم بعنوان "بزم شعراء"۔
بزم شعراء
رات محفل شاعروں کی جو سجی دربار میںچاند تاروں نے بچھائی آنکھ تھی دیدار میں
ڈرتے ڈرتے میں چلا جو جانب محفل مگر
ایسے جیسے لاڈلا کوئی چلے اغیارمیں
میں گیا تو دیکھتاہوں شاعراں بسیار شد
ایک سے بڑھ کر نیا تھا تیز ترگفتار میں
ان کی آوازوں نے وہ ہنگامہ برپا تھا کیا
ناؤ جیسے پھنس گئی ہو سیل کے منجدھارمیں
کوئی چینخے کوئی چلّائے کوئی آواز دے
کوئی محوِ گفتگو کوئی محو اشعار میں
میں وہاں سنتا ہوں جو تمہیں بھی سنواتا چلوں
آگ اپنے سینے کی میں یونہی بجھواتا چلوں
شاعر اوّل قصیدوں میں بڑے باذوق تھے
نکتہ چینی کے انہیں دنیا کی شاہی شوق تھے
شاعر اوّل
چار سو ہے دشمنی کی وہ گھٹا چھائی ہوئیبابل و بغداد کی حیران ہوئی تاریخ بھی
عدل و انساں دوستی کا بھی جنازہ چل پڑا
مٹ گئی ہے دوجہاں سے وہ امن کی چاشنی
حاکمِ ہندی ہے اقلیّت کے جیسے تاک میں
بے ثمر بے آسرا ہے مفلسوں کی زندگی
’یہ کہا این سی نے پی ڈی پی نے کچھ ایسا کہا‘
کانگریس کے ترجماں نے بھی یہی آواز دی
’فی کلو چاول ہے کافی ایک کنبے کیلیے‘
فوڈ سیکورٹی ایکٹ پہ شاعر نے اپنی رائے دی
مسئلہ کشمیر پر وہ اسطرح گویا ہوئے
گر میسّرہوتو آزادی وگرنہ قید ہی
اور بھی کافی کہے تھے شاعر اوّل مگر
ساری باتیں نقش ہوتی ہیں کہاں سے ذہن پر
دوسرےصاحب جو غزلوں میں بڑے استاد تھے
میرؔ و غالبؔ کے ہزاروں شعر ان کو یاد تھے
دوسرا شاعر
جانکنی کا میری تم کو اب کہاں احساس ہےپھر بھی میں یونہی سمجھتا ہوں تو میرے پاس ہے
ایک چشم آرزو مجھ پر کبھی کرتے چلو
تیری آنکھوں کی کدورت بھی مجھے تو راس ہے
تیرے قدموں کی کرامت سے لبالب ظرف ہیں
پر تری ناراضگی سے میرے گھر افلاس ہے
توٗ مرے ہمدم ہو تو یہ زندگی الطاف ہو
توٗ نہیں تو زندگی کا ہر مزہ بکواس ہے
عشق نے تیرے کئی انداز بھی اپنا لئے
رومیو ہے قیس ہے رانجھا ہے دیواداس ہے
آخری دم تو خبرگیری کرو اے سنگ دل
شاعرِ دوئم ترا بیٹھا لگائے آس ہے
دوستو یہ تھی نری بکواس شاعر دوم کی
اب سنو احوال تیجے شاعر معصوم کی
تیسرے صاحب ظرافت میں بڑے مشہور تھے
خانہ داری کے ضمن میں اسطرح گویا ہوئے
تیسرا شاعر
داستان خانہ داری میں یہی اکثر ہواشوہرِ بے آسرا یونہی سخن گستر ہوا
سوچتا ہوں میں کبھی ناگن کے تیور دیکھ کر
کیوں نہ بھالو ہی مرے اسفار کا ہمسر ہوا
اِس بلا سے شادی کر کے میرے پیارے دوستو
الّو کا پٹھّا نا ہوا الّو کا ٹوٹا پر ہوا
نان باسی کے ملے زلفوں سے پُر تھا شوربہ
چائے کے قہوے سے بھیگا ٹاٹ ہی بستر ہوا
میرے کپڑوں کے بجائے بیوی دھوتی ہے مجھے
آئے دن ہی میرے گھر ہنگامۂ محشر ہوا
مار پڑتی ہے کبھی چمچے سے تو میں کیا کہوں
واصل دوزخ ہوا کیوں نا ؟ شہید گھر ہوا!
مجھ کو دوزخ کی بلاؤں سے حفاظت مل گئی
شامت اعمال سے جو میں ترا شوہر ہوا
تیسرے شاعر کے اقوال گہر بھی ہو گئے
کیا کہوں محفل میں آدھے آدمی تو سو گئے
ایک شاعر خشک تھے اب وہ اٹھے اس شان سے
وہ اٹھے تھے انقلاب شاعری عنوان سے
چوتھا شاعر
شاعری میں آج کی ہوتی بحر ہے نا وزنآج کے شاعر کہاں جانیں گے یہ باریک پن
شاعری مقصود سے خالی وزن ہے نا خیال
قافیے چنداں ہیں مستعمل مگر بے جوڑ و فن
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلا
حال کی میری غزل میں یہ بحر ہے موجزن
کیا کہیں وہ شاعری کی روح تھی جو وہ ہنر
ہو گیا الفاظ کے تھوڑے ذخیرے میں دفن
اور اگر کچھ شاعروں میں وہ ہنر باقی بھی ہے
وہ پڑے ہیں یاس کی دنیا مین بے گور و کفن
شاعری انسانیت کی بے مثل تمثیل ہے
تو اگر انساں نہیں بنتا نہ بن شاعر تو بن
انقلاب شاعری کو میں بھلا اب کیا کہوں
یہ تو وہ غمزہ ہے تن میرا رہا نا ہی یہ من
دوستو میں کیا کہوں کچھ اور بھی شاعر اٹھے
اپنے اپنے طرز کے اشعار انہوں نے کہے
اب مری باری تھی میں بھی کچھ بیاں کرتا چلوں
اپنے قدموں کو شریک کارواں کرتا چلوں
میں
شاعروں کی بزم میں میری بھلا اوقات کیاخیر میں کہتا چلوں میں نے وہاں پر کیا کہا
شاعرو تم اب بھی الجھے ہو نجی گفتار میں
آشیاں سے دوڑ کے باہر جہاں کو دو صدا
اب مساکین جہاں کو خوف کی حاجت نہیں
بزم عالم میں انہی کا دور اب ہے آگیا
گر کوئی شاہیں کبوتر پر کبھی حملہ کرے
کر دو عالم میں بپا ہنگامۂ روز جزاء
گر کوئی انسانیت کی خرقہ پامالی کرے
اسکے ہاتھوں کو پکڑ کے کاٹ دو اُسکو تھما
اور اگر کوئی شہید انس و الفت دیکھ لو
اسکے دامن کو پکڑ لو تھام لو اسکو سدا
چھوڑ کے بوسیدہ باتوں کو نیا پیغام دو
ساری دنیا کے بنی انساں کو تم اسلام دو
دوستو انجام یوں محفل ہوئی اشعار کی
میں سناتا بھی چلوں یہ بات میرے یار کی
شاعراں بسیار گفتہ شعر ہائے پر مزہ
کس نگفتہ شعر ہمچوں حاء و الف و میم و یا
No comments:
Post a Comment