Tuesday, 20 October 2015

Ghazal by Tasneem Rehman Hami

غزل

ہو خواب و خیالوں میں یوں بس گیے تم
پھر اتنا پرے مجھ سے کیوں بس گیے تم


ترے وصل کی لاکھ کوشش ہے کر لی
ہو یادوں میں مثل جنوں بس گیے تم

مجھے ہے خوشی تم سے دل جو لگایا
مگر میرے دل کے بدوں بس گیے تم

خدا کی قسم تیری یادیں ہیں ہر دم
مرے دل کی رگ کے دروں بس گیے تم

مرے دل میں تیرا جنوں دوڑتا ہے
مرے انگ میں میں خوں بس گیے تم

نکلتی ہیں آہیں جو تو یاد آے
مرے دل میں اب کیا کروں بس گیے تم

ترے غم کے ساے ابھرتے ہیں رخ پر
کس کس کو میں کیا کہوں بس گیے تم

تم نے مری زندگی بس چرا لی 
بنا ترے کیسے جیوں بس گیے تم

نہ ہے نامہ بر ہی قلم ہے نہ دم ہے
میں تم کو کیسے لکھوں بس گیے تم

اگر تجھ کو مجھ سے بچھڑنا ہی تھا پھر
مرے دل کی دنیا میں کیوں بس گیے تم

نہ جاتے ہو دل سے نہ ہو پاس آتے
کہہ دو ! جیوں یا مروں بس گیے تم

جھکا کر میں اپنا گریباں میں چہرہ
دھڑکن میں تم کو سنوں بس گیے تم

ترا نام لے گر کوی پیش میرے
سمجھتا ہوں اچھا شگوں بس گیے تم

ذرا جانب حامی خم کو جھکا لے 
تری مے سے میں بھی پیوں بس گیے تم

No comments:

Post a Comment