مسافر سے خطاب
رحمت حق کوہمیشہ پاسباں کرتے چلوعشق کے اسفار کو یوں جاوداں کرتے چلو
ماورا گردوں سے ہے منزل تمہاری بے شبہ
دو گھڑی ارض خدا کو آشیاں کرتے چلو
بے سر و ساماں اگر ہو،عشق تو ساماں ہی ہے
ریت کو بستر،فلک کو سائباں کرتے چلو
ہیبتِ ذوقِ خدائی سے جبل رائی کرو
قطرۂ نیساں کو دریائے رواں کرتے چلو
بحر و بر کو راستوں سےپُرزمیں کرتے رہو
اس روائے نیلگوں کو آسماں کرتے چلو
برگ و ساماں کے بنا ہی اقوام کو منزل ملی
بےثمر بے رسد ہی دستارخواں کرتے چلو
راستے قزّاق کی گھاتوں میں ہوں پوری طرح
پیشتر اسکے رحیل کارواںکرتے چلو
گام سبک و تیز تر کرتے رہو بڑھتے رہو
تابناکی شوق کی سب پر عیاں کرتے چلو
حامیِ ؔگستاخ کی بھی ایک ہی تو بات ہے
بات جو باتیں بنائے وہ بیاں کرتے چلو
most intersting by itersetng poet
ReplyDelete