Tuesday, 8 March 2016

Undulus | اندلس a historical poem via Tasneem Rehman Hami

اندلس3 نظم از تسنیم الرحمان حامی

 اندلس2نظم از تسنیم الرحمان حامی

اندلس 3 نظم از تسنیم الرحمان حامی



اندلس


ہوتی ہے کشا جس دم، کہنے کو زباں اپنی
جاتی ہے سرِ یزداں، دل دوز فغاں اپنی

اسلاف کے کھنڈروں کو ،دیکھوں جو میں اے لوگو
گنگ ہوتی ہے اس لمحہ، تقریرِ رواں اپنی

تم جان نہ پاؤگے ،اے خفتہ دلاں مسلم
اندلس کی فضاؤں میں سنتا ہوں اذاں اپنی

دزدیدہ نگاہوں سے ،اندلس کے مراکز کو 
دیکھوں جو میں روتا ہوں ،ہے چشم رواں اپنی

طارق کے قدم جس نے چومے تھے محبت سے
وہ پاک زمین اب ہے، در دستِ بتاں، اپنی

ہائے وہ کتب خانے ،وہ علم کے گہوارے
وہ درسِ تصوف کی ،ہیں کتب نہاں اپنی

اس وقت کے سلطاں کو ،دھوکے میں پھنسا کر پھر
افرنگ لعین نے کی،فطرت ہے عیاں اپنی

خوابیدہ ہے قوم اپنی ،دل ہار کے بیٹھی ہے
آلودۂ زنگ ہے اب ،شمشیر وکماں اپنی

اے کاش مقدر میں ،ذلت نہ لکھی ہوتی
اس قوم کے جس کی ہے،یہ ارض جہاں اپنی

ہے ظلم وستم ہر سو ،سویا ہے مسلماں تو
تیرا تو فریضہ تھا، ہے قوم کہاں اپنی

اس راہ کو چھوڑ کے اب،سنت پہ مر ومٹ لو
اب جیت ہماری ہے،ہمت ہے جواں اپنی

ہم گوہر وموتی ہیں ،اے مسلمِ ناداں اٹھ
اللہ کے حضرت میں ،قیمت ہے گراں اپنی

اب اٹھ کہ گلستاں میں لائیںگے بہار اب پھر
گذری ہوئی صدیوں میں ،آئی تھی خزاں اپنی 

تسنیم الرحمٰن حامیؔ









No comments:

Post a Comment