غزل
یہ گماں گذر رہا ہے رہ رہ کے میرے من میں
پلتے نہیں ہیں صابر آئین کے دمن میں
کیا کیا خیال گذرے کیا کیا طرح نہ سوجھی
ہر بار کچھ نہپایا کھویا ہی ہر جتن میں
دنیا کے انجمن کو ہستی سے اب جلا دو
اب یہ صلاح ٹھہری کہرام کے ضمن میں
میں سن رہا ہوں شاید نغموں کو بلبلوں کے
محفل سجا کرے گی اب دامن چمن میں
ہستی مری نہ ٹھہری طوفان یم کے آگے
بس اک شرر رہا ہے وہ بجھ نہ جاے من میں
اب محفل جہاں میں کوئ نہیں شناسا
یاران کارواں کو کھینچے کوئ ہے فن میں
شاعر نہ بن سکا میں پر اپنے دل کا غالب
دلّی کے میرزا کی حسرت نہیں ہے من میں
کوئ تو ہو جہاں میں سنتا جو آدمی کی
کچھ نے خدا کو پوجا کچھ آجھکے صحن میں
محشر کے دن حضوری جو ہو خدا کے آگے
شاہد کے طور ان کی تصویر ہے کفن میں
کا زاہدوں سے گذرا پھر آج فاسقوں سے
کل آدمی سے گذروں پھر جا رکوں میں بن میں
تسنیم الرحمان حامیؔ
تسنیم الرحمان حامیؔ