تمنّائے دل
مرا کام عشق بازی,مرا دین عشق خواہی
مری خو ہے بے نیازی,مرا طرز خانقاہی
مرا دیں بلند تر ہو ,مری قوم سرخرو
اے کاش پوری ہو یہ مری آرزو الہی
مری داستاں محبت,مری لوح لختِ دل ہے
مری انگلیاں قلم ہیں,مرا خوں مری سیاہی
جو قوم بے جگر ہو,نا آشناے منزل
اس قوم کا مقدّر,ہے لکھی ہوی تباہی
میرے کام آکے پھر بھی مرے کام کچھ نہ آیا
یہ جہان آب و خاکی,یہ مکان مرغ و ماہی
مری آنکھ کو عطا ہو عالم کی درخشانی
میرے خیال کو دے عالم کی تو اگاہی
میری قوم کے جواں کو مرا خونِ دل دکھا دے
میرے پیر کو سکھا دے مری انجمن کی شاہی
ظلم و ستم کے ایسے ادوار چل رہے ہیں
مرا جسم بھی کراہا,مری روح بھی کراہی
مجھےکیوں ستاے دنیا,ترا عدل ہے کہاں پھر
ملی موت کی سزا ہے,مرا جرم بے گناہی
میری منزلیں کہاں ہیں,مرا راستہ کہاں ہے
بھٹکاے ہے یہ رہ سے مجھے میری بدنگاہی
اک بار پھر جہاں میں,اے کاش جلوہ گر ہو
بس اک جھلک نگہ نے ترے نور کی ہے چاہی
ترے بندۂ دکھی کو مولا مرے بخش دے
دامن مرا تہی ہے,لایا ہوں رو سیاہی
تسنیم الرحمان حامی۔
یونیورسٹی آف کشمیر سری نگر,شعبہ انجینیرنگ۔
ساکنہ مرہامہ کپوارہ کشمیر
hamitasneem@gmail.com
tasnim37@live.co.uk
No comments:
Post a Comment