By
Tasneem Rehman Hami.
(Engineering student at Kashmir University)
اب نمایاں رات میں وہ جلوۂ اختر کہاں
اب کسی کی آنکھ میں وہ غمزۂ خودسر کہاں
آبجوے گلستاں میں وہ ترنّم اب نہیں
اب مرے کانوں میں آے نغمۂ صرصر کہاں
وہ ادایں عاشق جانباز کی ملتی نہیں
اب کسی کے ہاتھ میں وہ تیشۂ آذر کہاں
اب تو مٹکوں کو اڑا کر بھی نہیں مخمور ہم
اب کسی کے ہاتھ میں وہ بادۂ ساغر کہاں
طالبوں میں آج کے وہ فیض کامل کیونکہ ہو
اب مرے استاذ میں وہ جذبۂ بتگر کہاں
دور حاضر میں اگر وہ زور فاروقی نہ ہو
تو ملے گا خاک میں یہ شکوۂ قیصر کہاں
دن میں گر یہ آنکھ میری دیکھتی ہے اور کچھ
خواب میں دکھلایں گے وہ چہرۂ انور کہاں
اب کسی یعقوب کی آنکھوں کو جو بینا کرے
آج کے یوسف سے پایں جامۂ عنبر کہاں
ایک ہی جنبش میں سارے ہی دلوں کو موڑ دے
اب کسی محراب میں وہ نالۂ منبر کہاں
تسنیم الرحمان حامیؔ
Impressive
ReplyDelete