غزل
چلو مجلس میں بیٹھے دوستو محفل کو گرمایں
کہ اپنی آتش دل سے چراغ بزم بھڑکایں
کبھی الفت کے گیتوں کو زبان دل سے دہرایں
کبھی ہنس کر ذرا رو دیں کبھی رو کر بھی مسکایں
چلایں دور , ساقی کو ذرا کہ دو کہ ہم آے
نہ پینے کا جسے ہو شوق اسکو جام پکڑایں
کبھی ہجراں کے نغموں سے فضا افسردہ سی ہو لے
کبھی ان کے نکھرتے جلووں کو دل میں سمٹایں
کسی لمحہ نہ اے یارو توجّہ کو تھکن دینا
کسے معلوم کس لمحہ حجاب نور سرکایں؟
کوی بلبل کی صورت نغمۂ حسن و چمن گاے
کوی چوں چوں کوی کُو کُو کوی غاں غاں کوی کایں
ارے! حامی اسی مجلس کے کونے میں تو بیٹھا ہے
چلو اشعار کہتے ہو کہ ہم تم سے کہلوایں۔
🌷تسنیم الرحمان حامؔی💐
No comments:
Post a Comment